Tuesday, August 6, 2013

قرآن بیان کرتا ہے کہ ’’لیلۃالقدر میں ملائکہ زمین پر اترتے ہیں ‘‘
تفسیر کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ فرشتے اللہ کا امر لیکر زمین پرہر طرف پھیل جاتے ہیں, شجر ھجر پہاڑ دریا ہر شیئ تک اللہ کا امر پہنچاتے ہیں, مفسّر ہر مخلوق کا ذکر کرتے ہیں
مگر اشرف المخلوقات کا کوئی ذکر نہیں ۔
کیا اللہ انسان کیلئے کوئی امر نہیں بھیجتا ؟
اج تک کسی انسان نے یہ اعلان نہیں کیا کہ فرشتہ شب قدر میں اسکے پاس آیا تھا!!
نہ عشرئہ مبشّرہ میں سے کسی نے نہ انکے بعد کسی نے, دیگر مذاھب کے ماننے والوںکاتوذکر ہی کیا ۔۔۔ توکیا آجتک کسی انسان کے پاس فرشتہ نہیں آیا ۔ آیا ہوتا تو مفسّر چپ نہ رہتا!
فرشتے نازل ہوتے ہیں اور بالیقین نازل ہوتے ہیں مگر ہما شما پر نہیں۔
دلوں کو تعصّب سے پاک کر کے سنو
فرشتے شب قدر میں ’کُل امر ‘ لیکر اللہ کی حجّت ’ صاحب امر ‘ پر نازل ہوتے ہیں
1

اللہ کے رسولؐ کے پردہ فرمانے کے بعد صرف علی ؑ اور اولاد علیؑ نے قرآن کی صداقت کو دلیل دینے کے لیئے یہ اعلان کیا کہ شب قدر میں فرشتوں کے نازل ہونے کا مر کز ہم ہیں ۔
العظمت للہ !

Sunday, August 4, 2013

گر قبول افتد ۔۔۔۔
قافیوں, ردیفوں,دور کی کوڑیوں,طبع زاد تفسیروں,منبر سے لچھّے دار بیانوں ۔۔۔۔ کے چٹخارے
نفس کو خوش کر سکتے ہیں معصومین کو نہیں ۔
بارگاہ ایزدی اور بارگاہ رسالت و امامت میں قبولیت
صرف
عمل کی ہے یا عمل پرور الفاظ کی
فریب سے بچو!!

Saturday, August 3, 2013

امام اور بھی مشہور ہیں
مگر علیؑ اور اولاد علیؑ وہ آئمہ ہیں جنکی خبر صاحب وحی نے دی
اور یہ تصدیق کی کہ یہ جنّت کی طرف ہدایت کرتے ہیں
لوگ شکایت کرتے ہیں کہ حدیث ’بابِ علم‘مکمل بیان نہی کی جاتی
اور ’چھت کھڑکی وغیرہ‘ کا تذکرہ نہیں کیا جاتا
واضح رہے کہ یہ الفاظ متن ح دیث کا حصہ نہیں ہیں اور مشکوۃٰ میں شرح حدیث کا حصّہ ہیں

لیکن شکایت پھر بھی بجا ہے 
حدیث کے آخری الفاظ ہیں ’’ من ارادالعلم فلیا ت الباب ‘‘ جوبیان نہیں کیئے جاتے۔
جو علم حاصل کرنا چاہے وہ شہر کے ’’دروازہِ ‘‘ سے آئے۰
رات پھر رات ہے خواہ وہ شب قدرہی ہو۔۔۔۔۔۔ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک
پھر وہ دن کیسا با فضیلت ہو گا جس دن ’دین‘ کامل ہوگیا اور اللہ اپنے حبیبﷺ کیلیئےاسلام پر راضی ہوگیا
دن ہو یا رات یہ انسان سے افضل نہیں!
انسان اشرف المخلوقات ہے !!
اب تعصّب سے پاک ہوکر سوچو
وہ انسان اللہ کی نگاہ میں کس درجہ پر ہوگا جس پر شب قدر میں قرآن نازل ہوا
اور وہ انسان اللہ کی نگاہ میں کس درجہ پر ہوگا کہ’پالان شتر کے منبر‘ والے ’’دن ‘‘جسکی ولایت کے اعلان کے بعد ۔۔۔ دین کامل ہو گیا ۔۔ اللہ راضی ہو گیا !!!
اب سوچو کہ ہم میں کتنی صلا حیّت ہے کہ اللہ نے ہمیں محمدﷺ اور علیؑ کی پیروی کاحکم دیا ہے ۔۔۔ ال عظمت لل
اللہ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے  ۔۔۔۔ قرآن
اللہ کے اخلاق کو اپنائو  ۔۔۔۔۔   حدیث
تمہارے لیئےرسول کی ذات میں بہترین نمونئہ عمل ہے   ۔۔۔۔   قرآن

انسان کے نفس میں کتنی وسعت ہے کہ وہ اللہ اور رسول دونوں کی صفات کو اپنا سکتا ہے !!
جس نے صفات کو اپنانے کا حق ادا کیا ۔۔۔ وہ  ’  علی  ‘  بن گیا  (ع)
تم بھی کوشش کرو اور سلمانؓ اور ابو ذر ؓ بن جائو ۔